Monday, August 13, 2012

Seema Gupta Poetry Book "Dard Ka Dariya" Review By Aslam Chishti Ji Published in "HAMARA SAMAJ" 12 AUG 2012


Seema Gupta Poetry Book "Dard Ka Dariya" Review By Aslam Chishti Ji Published in "HAMARA SAMAJ" 12 AUG 2012


http://www.hamarasamaj.com/delhi/page5.html


سیما ؔگپتا کا مجموعئہ کلام " درد کا دریا ''سماج نیوز سروس / محمد شہزاد عباسی

سیما ؔگپتا دورِجدید کی ابھرتی ہوئی شاعرہ ہیں جو اردو اور ہندی دانوں پر اپنا عکس چھوڑتی ہوئی اپنی منزل کی طرف پرواز کرتی جا رہی ہیں ۔انہیں عصرِ حاضر کے زرائع فیس بک نے اور زیادہ مقبولیت و شہرت کا آسمان بخشا۔سیما ؔگپتا گراں قدر مالا کا وہ خوبصورت موتی ہیں جس میں سے نکلنے والی چمک خواہ اردو شاعری ہو یا ہندی کویتا، ادب کی
 دنیا والوں کو مسحور کر دیتی ہے۔ان کے کلام کو محسوس کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کلاسیکی ادب کی روح سے آشنا ہیں لیکن روایت پرستی کی بجائے وہ خوب سے خوب تر کی جستجو میں رہتی ہیں اور زندگی و معاشرت کی تبدیلیوں کی روشنی میں ادب کے سانچوں اور اسالیب میں تبدیلیاں ضرور ی سمجھتی ہیں ۔اسی پرواز کو اور زیادہ جدت بخشتے ہوئے ان کے مجموعئہ کلام ’’ درد کا دریا ‘‘ کا جائزہ ادبی دنیا میں مشہور قلم کے فنکارو شاعر اسلمؔ چشتی کی زبانی ’’درد کی روداد‘‘اسلمؔ چشتی کی ’’درد کی روداد‘‘سیما ؔ گپتا اب اردو ہندی ادبی حلقوں میں شہرت اختیار کر چکی ہیں بنیادی طور پر ہندی کی کویتری ہیں لیکن اردو تہذیب سے واقفیت اور اردو کے الفاظ کے موثر استعمال کی وجہ سے ان کی مقبولیت اردو والوں میں بھی ہے ۔یہی نہیں بلکہ یہ آل انڈےا مشاعرے بھی پڑھتی ہیں ۔کوی سمیلنو ںمیں بھی جاتی ہیں ، بیرونی ممالک میں بھی یہ بحیثیت شاعرہ بلائی جاتی ہیں ۔ان کی شہرت ان کے بلاگ ، فیس بک کی وجہ سے زیادہ ہوئی ہے ، فیس بک کے ذریعے ہی یہ میرے ربط میں آئیں ۔میں نے انہیں انتہائی مہذب اور بہترین شاعرہ کے روپ میں دیکھا ، میرا یہ مشاہدہ الفاظ کے ذریعے رہا ، پھر جب سماعتی سلسلہ بذریعہ موبائل چلا تو سیما گپتا کے ادبی ذوق اور ان کی شائستگی کے گن سامنے آئے ۔ٹی وی میں ان کی زبانی میں نے بار ہا ان کا کلام سنا ہے ۔اور کبھی کبھی ان کے اچھے کلام کی داد بھی موبائل فون پردی ہے ۔اب جبکہ میں عصرِ حاضر کے فعال اور معیاری قلم کاروں پر لگاتا ر مضامین لکھنے لگا ہوں تو خیال آیا کیوں نہ سیما گپتا کی شاعری پر بھی ایک مضمون لکھ دوں ۔چنانچہ میں نے سیما گپتا سے فون پر کہا کہ وہ اپنی کوئی کتاب مجھے بھیج دیں ۔سیما گپتا نے اپنا ایک نیا مجموعئہ کلام ’’ درد کا دریا‘‘ بذریعہ کورئر روانہ کیا ۔میں نے اپنی اولین فرصت میں اس کتا ب کا مطالعہ کیا ۔یہ مطالعہ سیما گپتا کے سلسلے کا میرے لیے نیا تجربہ رہا۔یہ تجربہ دلچسپ کم اور حیرت انگیز زیادہ ہے کہ واقعی اس میں ایک درد کا دریا ہے۔مختلف عنوانات کے تحت سیما گپتا کی نظمیں کتا ب کے 149 پر پھیلی ہوئی ہیں ۔ہر نظم میں درد کا ایک الگ الگ رنگ ہے ۔کچھ نظمیں نمونتاً پیش ہیں۔’’ امانت ‘‘امانت میں اب اور خیانت نہ کی جائے آہیں شر ر فشاں آج انہیں لوٹائی جائےہجرِ یار میں جو ہوا چاک دامن میرا دریائے اضطراب ان کے سامنے ہی بہائی جائے’’ بے وفائی کو ایک نےا نام ‘‘من کی آہٹوں کا ،ایک نازک سفر تھا ، تیرے میرے درمیاں، نہ مجھے چاند تاروں کی خواہش ، نہ تمہاری کوئی فرمائشنہ مجھ پر تیری نگاہوں کا پہرا ، نہ تجھ پہ میری کوئی زور آزمائش ، دونو ں کے پاس ہی تو ، اُن مُکت آسمان تھاتیری بے رخی کی خاموش ادا نے ، مان ہانی کا ذکر کیا کیا ، یو ں لگا بے وفائی کو ایک نیا نام مل گےا۔’’ تیراخیال ‘‘خیال بھی تیرا آج مجھے رلا نہ سکاشرارئہ رنج کا دل سے کوئی سودا ہوا شاید’’ رشک ‘‘طبیعت کی بے دلی کے اندازیہ اب رشک کیا کریںچھوٹی سی بات پہ توڑکے ان سے رشتہ بہتے رہیں اب اشک کیا کریں۔’’ احساس ‘‘خاموش چہرے کے خُشک ریگستان پہتیرے لبوں کی ایک جُنبش احساس کے انگاروں کا پتہ دے گئی ۔ایسی چھوٹی بڑی سیماؔ گپتا کی نظمیں کئی طرح کے درد کا احساس جگاتی ہیں ۔ساری نظموں میں درد کی لہر ہے۔یہ لہر قاری کو پہلی نظم سے ہی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔قاری چاہے وہ مرد ہو کہ عورت محسوس کئے بغیر نہیں رہتا ۔اس احساس سے میں بھی گذرا ہوں ۔اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ سیما گپتا انسان کے درد سے آشنا ہی نہیں بلکہ اس درد کے درماں کی متلاشی بھی ہیں ۔یہ تلاش ہی ان کی تخلیقی خوبی ہے ۔تڑپ ہے جو انہیں بے چین رکھتی ہے اور نئی کویتائیں ،نظمیں کہنے پر اکساتی ہے۔سیماؔ گپتا کی تخلیقی صلاحیتوں کی کوئی سیما نہیں ، شاید ان کی آخری سانس ہی اس درد کی لہر کی سیما ہو ، تب تک یہ زمانے کو درد کے بے شمار رنگ دے چکی ہونگی ، اصل میں یہ درد سیماؔ گپتا کا ذاتی درد نہیں ناری ذاتی کا درد ہے جو ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہےگا۔اسے محسوس کرنے والے محسوس کرتے ہیں ، نہیں محسوس کرنے والے نہیں محسوس کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ دردمستقل ہے جو ناری ذاتی کا نصیب ہے۔’’ درد کا دریا ‘‘ سیماؔ گپتا کا دوسرا مجموعئہ کلا م ہے جو اردو ہندی اسکرپٹ میں شائع ہوا ہے۔اس طرح دونو ں زبانوں کے قارئین فیضیاب ہوں گے۔لیکن خوبی یہ کہ لفظیات دونوں اسکرپٹس میں یکساں ہیں ۔یہ سیماؔ گپتا کی لسانی خوبی ہے کہ انہو ں نے اپنی نظموں،کویتائوں میں ایسے شیتل،سجل اور سہل الفاظ کا استعمال کیا ہے کہ جسے دونوں زبانوں کے قارئین آسانی سے سمجھ سکیں یہی وجہ ہے کہ سیماؔ گپتا کی شہرت و کامیابی دونوں حلقوں میں ہے ۔جہاں تک اردو ادبی حلقوں کی بات ہے تو غزل چھائی ہوئی ہے دوسرے اصنافِ سُخن اتنے مقبول نہیں ہو پاتے ۔اس بات کا احساس سیماؔ گپتا کو بھی ہے ۔انہوں نے غزلیں بھی کہی ہیں ،نمونتاً ایک غزل۔’’شاعری نہیں ہوتی ‘‘چوٹ دل پر لگی نہیں ہوتی ہم سے پھر شاعری نہیں ہوتی تم سے اگر دوستی نہیں ہوتی زندگی زندگی نہیں ہوتی خود پہ الزام مت سمجھ لینابِن تیرے مئے کشی نہیں ہوتیکام اچھے کیے چلے جائو کوئی نیکی بد ی نہیں ہوتی تیرے دیپک ہی بجھ گئے شاید ورنہ یہ تیرگی نہیں ہوتی غم میسر تمہیں نہیں آتاہم کو حاصل خوشی نہیں ہوتی ان کی غزلیں چھپی بھی ہیں لیکن سیما ؔ گپتا کی دلچسپی نظموں ، کویتائوں میں ہے بلکہ ان کا خاص میدان نظم، کویتا ہی ہے۔اردوزبان میں پابند نظمیں خوب کہی گئی ہیں۔ان نظموں کی تاریخی ادبی اور تہذیبی اہمیت بھی ہے لیکن دو ڈھائی دہائیوں سے پابند نظموں کا چلن کم ہوگیا ہے۔آزاد نظمیں اور نثری نظمیں زیادہ کہی جارہی ہیں۔ سیما ؔ گپتا کی نظمیں نثری نظمیں کہی جا سکتی ہیں۔اردومیں بھی ایسی نظمیں کچھ سنجیدہ شاعر کہہ رہے ہیں اس لئے سیماؔ گپتا کا کلام آج کے اردو قارئین کے لئے اجنبیت نہیں رکھتا اور پھر ان نظموں میں بھی لفظوں کا آہنگ خیال کا ساتھ دیتا ہے۔ سیما ؔ گپتا کا یہ اندازِسُخن بھی ملاحظہ فرمائیں۔’’ ہتھیلی پہ اُتاراہم نے‘‘رات بھر چاند کو چپ کے سے، ہتھیلی پہ اتارا ہم نے کبھی ماتھے پہ ٹکایا ، کبھی کنگن پہ سجایا ، آنچل میں ٹانک کے موسم کی طرح، اپنے عکس کو سنوار ا ہم نےرات بھر چاند کو چُپ کے سے ہتھیلی پہ اُتارا ہم نے سُنا اس کی تنہائی کا سبب، کہی اپنی داستاں بھی ، تیرے ہونٹوں کی جُنبش کی طرح، پہروں دیا سہارا ہم نے رات بھر چاند کو چُپ کے سے ہتھیلی پہ اُتارا ہم نے اپنے اشکوں سے بنا کے ،محبت کا حسین تاج محل ، تیری یادوں کی کروٹوں کی طرح ،یوںہی ایک ٹک نہارا ہم نےرات بھر چاند کو چُپ کے سے ہتھیلی پہ اُتارا ہم نے ’’ کوئی اس چاند سے پوچھے ‘‘پہاڑیوں گھٹاٹیوں کے اوپر ، بادلوں کی دھارا میں بہتا ، جھیل کی ڈبوتی آنکھوں میں تیرناچپ ساتنہاچاند کا ٹکڑا ، ستاروں کی جگمگاہٹ اوڑھ ، رات اور دن کے بیچ کا سفرمسلسل طئے کر رہا ہے ، ایکانت میں جینا کیسا ہوتا ہے ، کوئی اس چاند سے پوچھے۔انسانی درد کو کائنات کی اشیاء سے ملانا سیماؔ گپتا کا فن ہے۔ یہ فن کاری ان کی کچھ نظموں میں بہت مزاہ دیتی ہے ۔اصل میں سیما ؔ گپتا کی تحقیقی قوت تواناہے۔اپنے تخلیقی ریاض کے سمئے جو امیجری نظم میں دھلنے کے لیے بے چین ہوتی ہے وہ اسے لفظوں کا لباس پہنا کر سجادیتی ہیں ۔لفظوں کا چونائو اور چین سیما ؔ گپتا کو آتا ہے۔اسی ہنر نے سیما ؔ گپتا کو شاعرہ بنا دیا ہے۔ ایک اور خاص بات کہ ہر نظم میں وہ درد کے کسی نہ کسی خاص پہلو پر بات کرتی ہیں لیکن مایوسی یا اُداسی کی پرچھائیوں کو اپنی نظم کے قریب آنے نہیں دیتیں، اگر یہ کہیں آبھی جاتی ہیں تو نظم کے آس پاس ہی چمک کر بجھ جاتی ہیں۔’’ درد کا دریا ‘‘ کا پیش لفظ شعروشاعر شناس بانی ’’کل ہند شاعرہ اجلاس ‘‘داکٹر لاری آزاد ؔ نے لکھا ہے جو اصل میں سیماؔ گپتا کا شخصی اور فنّی تعارف ہے اس میں سیماؔ گپتا نے بھی ’’من کی اوس کی گرم بوندیں ‘‘ کے نام سے ایک مضمون ساہتک بھاشا ( تخلیقی زبان) میں تحریر کیا ہے جو ان کی نظمیں ،کویتا ئیں پڑھنے کے لیے قاری کا موڈ بنا تا ہے۔’’تاثرات‘‘ عنوان کے تحت آٹھ ہندی اور اردو کے دانشوروں کی رائے ان کے پہلے مجموعہ’’ وِرہ کے رنگ ‘‘ پر ہیں سبھی دانشوروں نے سیما ؔ گپتا کی شاعری کی سراہنا کی ہے اور سبھی کی ایک مشترکہ رائے بنتی ہے کہ سیماؔ گپتا ہجرِ فراق کی شاعرہ ہیں لیکن میری نظر میں یہ پورا سچ نہیں ہے۔پورا سچ اس وقت بنے گا جب ان کی کویتائوں کو کُھلے دماغ سے سمجھا جائے گا کُھلے دماغ سے محسوس کیا جائے ۔ تب ان رچنائوں کی اہمیت سامنے آئے گی اور یہ کویتائیں ذات کے درد سے شروع ہو کر ناری کے اصل درد کو ظاہر کرتے ہوئے چا روں اور پھیلی ہوئی نظر آئیںگی ۔*

No comments: